تحریر: چوہدری محمد امین گورایہ نمبردار
جب کسی ریاست میں بسنے والے مکینوں کی آنکھوں سے پٹی اتر جائے اور انکو یہ احساس ہو جائے کہ ریاست اپنی قوم کے فائدے کے لئے کام کرنے اور انکو سہولیات اور ریلیف دینے کی بجائے صرف اشرافیہ کے فائدے کے لئے کام کرتی ھے تو ریاست کا ھر فرد قوم کی خاطر قربانی دینے سے قاصرھو جاتا ھے بلکہ اپنے مفادات کی تلاش میں سر گرداں رھتا ھے مولانا ابوالکلام آزاد نے کیا خوب فرمایا ھے کہ ہمارے نزدیک اسلام کے دامن پر اس سے بڑھ کر اور کوئی بدنما دھبہ نہیں ہو سکتا کہ انسانی حریت اور ملکی فلاح کا سبق مسلمان دوسری قوموں سے لیں، حالانکہ مسلمانوں کے پاس قرآن پاک کی صورت میں ایک مکمل ضابطہ حیات ھے لیکن اگر مذھبی معاشی انصافی ضابطہ حیات کے ھوتے ھوئے کسی فرنگی سے ضابطہ حیات لیں گے تو اسکا نتیجہ یا رزلٹ بالکل الٹ ھوگا ایک اسلامی فلاحی مملکت کے قیام اور اس میں آزادانہ طور پر اللہ کے دین اسلام کے متعین کردہ اصول و ضوابط کے عملی غلبے اور نفاذ کے لئے کی گئی نبی کریم ﷺاور ان کی مقدس جماعت کی ہجرت کو چودہ سو پینتالیس سال بیت گئے ھیں اس طویل دورانیے میں اس کائنات نے بارھا بار مسلمانوں کے عروج و زوال کو دیکھا اور تاریخ نے ان حالات و واقعات اور ان کے اسباب کو اپنے دامن میں محفوظ کیا جب تک من حیث المجموع مسلمانوں میں ملی احساس بیدار رھا ،قرآن و سنت کی الٰہی تعلیمات مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ العمل رہیں اسلامی نظام خلافت و حکومت کا سانچہ کسی بھی صورت میں برقرار رہا، اقوام عالم پر مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم و دائم رھا، نصف دنیا پر مسلمانوں کی حکومت رھی اور مسلمان ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا کی برادری میں قائدانہ کردار ادا کرتے رھے اور پھر جب سے مسلمانوں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اللہ تعالی کی تعلیمات کو پس پشت ڈالا قرآن و سنت اور نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے دیئے ہوئے اسلامی مملکتی نظام کی جگہ اقوام باطل کے نظاموں کو اپنایا اپنے سنہرے ماضی سے خود کو کاٹ دیا تو کرہ ارض پر مسلمان ذلت و پستی کا نشان بن گئے ہر گزرتا دن ان کی رسوائی کا باعث بنتا گیا جس دنیا کے ذخائر اور خزانوں کے کل تک مالک تھے آج وہی دنیا اپنی تمام تر وسعتوں اور خزانوں سمیت ان کے لئے تنگ کردی گئی کل تک جو قومیں ایک ایک نوالے کے لئے ان کے دست سخاوت کی محتاج تھی وہ سیادت و قیادت کی مالک بن کر مسلمانوں کو اپنا نظریاتی فکری معاشی اور معاشرتی غلام بنانے لگیں اور آج پوری دنیا کا مسلمان قدم قدم پر ان کا محتاج بن کر رہ گیاھے۔ ایک بار پھر مسلم قوم کو اپنے ماضی کے دریچوں میں جھانک کر اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے سوچنا ہوگااور اس دنیا کے بوسیدہ نظاموں کو انقلاب اسلامی کی تیز ھواؤں کے جھونکوں سے خس و خاشاک کی طرح اڑاکر پھر سے دنیا میں اسلامی پرچم لہرانا ھوگا، آئیں عہد کریں کہ اپنے حصے کا دیا جلائیں گے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنی بساط کی حد تک اسلامی روح کو زندہ کریں گے دنیا کے فرسودہ نظاموں اور روایات سے بغاوت کریں گے اور ساڑھے چودہ سو سال پہلے کے اسلامی فلاحی معاشرے کو اپنا رول ماڈل بناکر اپنی دنیا و آخرت کی ترقی و کامیابی کے ہر باب کو واہ کریں گے۔ یہی ہماری عزت و عظمت ترقی و کامیابی کا راستہ ہے، تاریخ آج چودہ سو سال بعد بھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے کارناموں کو سلام پیش کرتی ہے، رات کا وقت تھا، مدینہ کی گلیوں میں مکمل خاموشی تھی،صرف ھوا کی سرسراہٹ اور کبھی کبھار کسی جانور کی آواز سنائی دیتی تھی۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم، اپنی عادت کے مطابق اپنی رعایا کی حالت جاننے کے لئے شہر کی گلیوں میں نکلے ھوئے تھے،ان کا لباس سادہ اور چہرے پر ایک فکر مند تاثرات تھے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے بارے میں فکر مند رہتے تھے، اس رات بھی وہ مختلف گھروں کے قریب جا کر لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے تاکہ انہیں حقیقی حالات کا علم ہو سکے،اسی دوران، ایک گھر سے ایک عورت کی آواز سنائی دی جو اپنی بچیوں کو دلاسہ دے رہی تھی کہ صبر کریں، صبح کچھ کھانے کو ملے گا،یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ کا دل بھر آیا اور وہ اس گھر کی طرف بڑھے، حضرت عمرؓ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر جا کر معلوم کیا کہ یہ عورت کیوں پریشان ہے،عورت نے بتایا کہ ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے اور بچےبھوک سے بے حال ہیں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ فورا ًواپس پلٹے اور بیت المال سے اناج اور دیگر ضروریات کا سامان خ…
