ورزش کتنی کرنی چاہیے؟

یہ امر قدیم و جدید طبی تحقیقات سے ثابت ہو چکا کہ ورزش ایسی زبردست سرگرمی ہے جسے اپنا کر انسان زندگی بھر تندرست و توانا رہ سکتا ہے۔یہ عمل اگر باقاعدگی سے ہفتے کے کم ازکم پانچ دن کیا جائے تو مجموعی فٹنس بہتر بناتا ہے ، پٹھے طاقتور کرتا ہے، ہڈیاں مضبوط بنانے میں مدد دیتا ہے ۔ساتھ ہی دائمی بیماریوں کے خطرے کم ، موڈ کو بہتر بناتا ہے اور جسمانی کمزوری کے خطرات دور کرتا ہے۔

ورزش ان بیماریوں کے خطروں کو بھی نمایاں طور پر کم کر سکتی ہے جو انسانی جسم کے ایک اہم عضو، دل کی صحت پر منفی اثر ڈالتے ہیں،جیسے ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول کا بڑھ جانا اور موٹاپا۔ مگر یاد رکھیے، اگر انسان حد سے زیادہ ورزش کرنے لگے اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے تو یہ انتہا پسندی ورزش جیسے بظاہر انسان دوست عمل کو بھی جسمانی وذہنی طور پر نقصان دہ بنا سکتی ہے۔ یہ عمل خاص طور پر دل کو متاثر کر کے “ایتھلیٹک ہارٹ” نامی طبی خلل پیدا کرتا ہے۔

جب کوئی انسان ورزش شروع کرے تو قدرتاً اس کے دماغ میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اسے صحت و تندرستی کی دولت پانے کے لیے دن میں کتنی ورزش کرنی چاہیے؟اور یہ بھی کہ کس قسم کی ورزش ضروری ہے؟ بہت سے لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ورزش کے کیا خطرات ہو سکتے ہیں اور اگر بہت زیادہ ورزش کی جائے تو کیا ہوتا ہے۔

امریکہ میں امراض قلب کا مشہور ادارہ، امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن عام طور پر ہفتے میں 150 منٹ کی معتدل شدت والی ورزش (جیسے تیز چلنا) یا 75 منٹ کی شدید ورزش (جیسے دوڑنا) کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہفتے میں کم از کم دو دن پٹھوں کو مضبوط کرنے والی ورزشیں بھی تجویز کی جاتی ہیں۔

جب کوئی انسان ان ہدایات سے زیادہ ورزش کرنے لگے، تو اس کا دل خود کو نئے معمول کے مطابق ڈھالنے لگتا ہے۔یعنی یہ کہ دل کا سائز اور شکل بدلنے لگتی ہے۔ نتیجتاً دل کے کام کرنے کا طریقہ بھی بدل سکتا ہے۔ وہ تبدیلیاں جو بہت زیادہ ورزش کرنے والوں کے دل کی ساخت اور کارکردگی پر اثرانداز ہوتی ہیں، انہیں “ایتھلیٹک ہارٹ” (Athletic heart )یا “ایتھلیٹ کا دل”کہا جاتا ہے۔ ایتھلیٹک ہارٹ لازمی طور پر خطرناک نہیں ہوتا، لیکن کچھ لوگوں میں یہ دل کے مخصوص مسائل کے خطرات کا خدشہ بڑھا سکتا ہے۔

کیٹاگری میں : صحت
اپنا تبصرہ بھیجیں