جدید طبی سائنس نے دریافت کر لیا کہ جین بعض انسانوں کوچند گھنٹے سونے اور زیادہ دیر جاگنے کی انوکھی صلاحیت دے سکتے ہیں
ڈاکٹر کہتے ہیں،سات سے نو گھنٹے کی نیند لینا بے حد ضروری ہے۔ یہ ہدایت اتنی بار دہرائی گئی گویا حتمی حقیقت بن چکی ہو ۔ اس سے کم نیند لینے کی صورت میں قلیل اور طویل مدت میں صحت کے مسائل لاحق ہو سکتے جیسے یادداشت کی کمزوری، میٹابولک مسائل، ڈپریشن، ڈیمینشیا، دل کی بیماریاں اور مدافعتی نظام کی کمزوری۔
لیکن حالیہ برسوں میں سائنس دان ایسے افراد کی نایاب قسم دریافت کر چکے ہیں جو مسلسل کم نیند لیتے ہیں اور اس کے باوجود ان پر منفی طبعی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ ان لوگوں کو ’’قدرتی طور پر کم نیند لینے والے‘‘ (Natural short sleepers) کہا گیا۔ ان کا جینیاتی ڈھانچہ اس طرح کاہے کہ انہیں صرف چار سے چھ گھنٹے کی نیند کافی ہے۔
یہ غیرمعمولی لوگ عیاں کرتے ہیں، اصل اہمیت نیند کے معیار کی ہے، مقدار کی نہیں۔ سائنس دانوں کو امید ہے ، اگر وہ یہ جان سکیں کہ یہ لوگ کس طرح مختلف ہیں تو شاید نیند کی اصل حقیقت بہتر سمجھ سکیں۔امریکی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو کے نیورولوجسٹ کہتے ہیں:’’حقیقت یہ ہے کہ ہم اب تک نہیں جانتے، نیند اصل میں ہے کیا، یا اس کا مقصد کیا ہے۔ یہ واقعی حیرت انگیز بات ہے کیونکہ عام انسان اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ سوتے ہوئے گزارتا ہے۔‘‘
کبھی سائنس دانوں کا خیال تھا کہ نیند محض آرام کا ایک دورانیہ ہے، جیسے کمپیوٹر کو اگلے دن کے کام کی خاطر بند کر دینا۔ موجد تھامس ایڈیسن نے نیند کو وقت کا ضیاع قرار دیا اور کہا تھا ’’یہ ہمارے غار کے دور کی میراث ہے۔‘‘ایڈیسن کا دعویٰ تھا کہ وہ رات کو کبھی چار گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتے۔ ان کے ایجاد کردہ بلب نے دوسروں میں بھی کم سونے کے رجحان کو بڑھاوا دیا۔ آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسے انسان ملتے ہیںجو رات کو پانچ گھنٹے سے بھی کم وقت سوتے ہیں۔
مگر جدید تحقیق نے یہ بھی واضح کیا کہ نیند فعال اور پیچیدہ عمل ہے جسے مختصر نہیں کیا جانا چاہیے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے، نیند کے دوران ہمارا جسم اور دماغ توانائی کے ذخائر دوبارہ بھرتے ، فاضل مادوں اور زہریلے عناصر خارج کرتے ، دماغی روابط (synapses) تراشتے اور یادداشت مضبوط بناتے ہیں۔ اسی وجہ سے نیند کی مستقل کمی صحت کے سنگین نتائج پیدا کر سکتی ہے۔